اُرْدُو اَدَب

اُرْدُو اَدَب
پاکستان کی آواز

جمعہ، 27 مئی، 2016

جوگی (افسانہ )


میرو بہت خوش تھا....پینٹ کی جیب میں اڑسے ہوے بٹوے کا پیٹ نیلے ہرے نوٹوں سے پھولا ہوا تھا.....آج اسے سیموکوڈ ڈنر پر لے کر جانا تھا، بچوں کو فن لینڈ لے کر جانا تھا، اور اماں،ابا کے ہاں سے بھی فون آیا تھا، کہ بیٹا بھول گے تیرے ماں باپ زندہ ہیں...وہ تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا...اچانک ایک نامانوس آواز نے اسکے قدم روک دیے...سامنے کافی رش نظر آرہا تھا...فطرت انسانی ہے کہ انسان ہر بات،ہر چیز کے بارے میں بس یونہی، بس یونہی تجسس کا شکار رہتا ہے...وہ بھی اس ہجوم کی طرف چل پڑا....
پاگل پاگل..... میں بھی پاگل........تم بھی پاگل......ہم سب پاگل.......دنیا والے سارے پاگل....اس کے دھول سے اٹے لمبے سیاہ بال ہوا میں لمبی لمبی جھاڑیوں کی مانند لہرا رہے تھے...اسکی قلمیں مونچھوں کی حدوں کو چھو رہیں تھیں...اسکا گریبان زمانے کے ہاتھوں چاک ہو چکا تھا....وہ ایک جوگی تھا....اسکے دونوں بازوں پیسا کے مینار کی طرح فضا میں بلند تھے.....ہاتھوں میں پکڑی ہوئی گھنٹیاں جن کو وہ انتہائی سرعت سے ادھر ادھر گھمارہا تھا...انکی ٹن ٹن اپس میں گھڈ مڈ ہو کر سریلی جھنکار پیدا کر رہیں تھی....جیسے کالی رات میں خونی مندروں پر رقص کرنےوالی چڑیلوں کی راگ اور سنگیت.......اک کلی عینک والے شخص سے جوگی کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کی،تو جوگی نے وہ نوٹ واپس اس شخص کے منہ پر دے مارا...اور بولا...پاگل.....تم لےلو یہ دولت....پاگل....تم پاگل....دنیا پاگل....ہم سب پاگل....اور پاگل دنیا والے.....ان الفاظ کے ختم ہوتے ہی اسکے سوکھے سڑے گلے سے ایسا فلگشگاف نعرہ نکلا جیسے مڈل اسکول کے تہخانوں میں کالی کالی چڑیلوں کے باریک قہقے چھوٹے دل والے بچوں کے دل دہلا دیتے ہیں.....یارات کے وقت سنگل پسلی پہرے دار کو چادر کے اندر تک دبک جانے پر مجبور کر دیتے ہیں...جب سب لوگ ایک ایک کر کے سرکنے لگے تو جوگی نے اپنی تھیلی اٹھائی.... تھیلی میں سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے تھیلی کو نوکیلا بنا رہے تھے...... میرو جوگی کے پیچھے جا کھڑا ہوا....اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا....جوگی نے مڑ کر اسے دیکھا تو اسکے انگارے جیسی آنکھیں میرو کو داغتی ہوئی محسوس ہوئیں....
مجھے تمہاری کہانی سننی ہے....میرو نے پہلے ہی داؤ پر پتہ شو کردیا....
جاؤ بابا جاؤ....کونسی کہانی.....کام کرو اپنا.....جوگی اپنے رستے کو ہولیا.....
میرو بھاگ کر اسکے سامنے آگیا....اور انتہائی لجاجت سے بولا بابا مجھے اپنی کہانی سنا دونا......اور پھر وہ دونوں فٹ پاتھ کے ٹھنڈے فرش پر اکر بیٹھ گے.....
جوگی بولا......یہ بھی ایک مست دیوانہ تھا.....ایک ٹانگ پر دھول جماتا تھا....لوگ ہر شام اسکے گرد جمع ہوا کرتے تھے.....یہ کوئی آٹھ یاں نو سال پہلے کی بات ہے.....سہانی شام تھی....مغرب میں ہلکی پھلکی سرخی پھیلی ہوئی تھی.....پرندے اپنے اپنے آشیانوں کی جانب محو پرواز تھے....... دو چار نام کی ڈگریاں میری بغل میں دبی ہوئی تھیں.....جو فائل میں صرف اسلیے محفوظ تھیں کہ انپر پلاسٹک کور چڑھا ہوا تھا.....میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو اس دیوانے کا دھمال دیکھنے کے لیے شہد پر مکھیوں کی طرح جمع تھے کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے بیوٹی پارلر سے ایک چہرہ پرنور چشم بدور، مجھے یاد کرنے دو......یہ کہنے کہ بعد بابے نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور سوچ میں ڈوب گیا......
کئی لمحے گزر گے.... ہاں....جوگی کی آواز نے میرو کو اندر تک ہلا دیا......نکلتا ہوا قد تھا....لمبے سنہری بال کمر کی سطح پر لہرا رہے تھے.....اسکی ناک لمبی مگر جاذب نظر تھی....اسنے ایکاد سے چشمہ آنکھوں پر سجایا....دودھیا چہرے پر چھائی ہوئی بالوں کی لٹ کو اک شان بےنیازی سے پیچھے کی طرف جھٹکا دیا....جیسے بادصبا نوآموز کلی کے گرد لہراتی ہے....اسنے ایک ادا سے دائیں دیکھا....بائیں دیکھا.....اور پھر سامنے دیکھا.......فلمی انداز سے ہاتھ چشمے تک لے کر گئی....چشمہ آنکھوں سے کھسکا کر ناک کی نوک پرٹکایا........کسی پچاس سالہ ہیڈ مسٹریس کی طرح سر جھکا کر چشمے کی آوٹ سے اس جوگی کو رقص کرتا دیکھنے لگی....پھر سنے فٹ پاتھ پر قدم رکھا....ڈرائیور نے چمکدار سیاہ کار کا دروازہ شاہی انداز میں اسکے لیے کھولا تو لڑکی نے ڈرائیور کی طرف دیکھے بنا انگلی سے دروازہ بینڈ کرنے کا اشارہ کیا....اور ہجوم کی طرف آنے لگی....جب وہ لوگوں کے درمیان آ کھڑی ہوئی تو میں لاشعوری طور پر کھسک کر اسکے دائیں جانب آ کھڑا ہوا......
''یہ ناچ کیوں رہا ہے''.... لڑکی نے پوچھا....
اسکا سوال سنتے ہی دونوں افراد جو میرے قریب کھڑے ہوے تھے اسکی طرف متوجہ ہوے....مگر چاندنی کی نظروں کا محور میری ذات سلیم تھی....
''آئ ڈونٹ نو.......'' میں نے ٹھیٹھ انگریزی میں جواب دیا.....
''اردو میں بات کرو''.....وہ بولی.......
''مجھے نہیں معلوم.....'' میں یہ کہ کر واپس ہولیا تو وہ بولی....
اے مین....رکورکو....بات سنو...واپس کیوں جارہے ہو....ناچ نہیں دیکھو گے....مفت میں.... دیکھو تو کیسے مینڈک کی طرح اچھل رہا ہے....یہ کہتے ہوے وہ اپنے بازو سینے کی سطح تک لائی؛ ہاتھوں کی انگلیوں کو نیچے کی طرف کیا..... اس سے پہلے کہ وہ مینڈک کی طرح اچھل اچھل کر اپنی بات کی تقلید کرتی میں مڑ کر چل پڑا.....بگڑے ہوے باپ کی بگڑی ہوئی اولاد لگتی تھی....میں دو قدم چلا......رکا......اور پیچھے مڑ کر دیکھا...... وہ دونوں ہاتھوں کو کولہوں پر ٹکائے؛ سر دائیں طرف ڈھکلائے؛ بھنوؤں کے الٹے سیدھے زاویے بنا بنا کر دیکھ رہی تھی....عینک اسکے ابھی سنگ مرمر سے ترشے ہوے ناک پر تھی....
آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے پلکیں جھپکاتے کسی پانچ سالہ بچے کی سی معصومیت سی پوچھا.....
وہ.....اسنے مرمریں ہاتھ کی انگلی سے ایک ہوٹل کی طرف اشارہ کیا...ادھر چلو پھر بتاؤں گی...یہ کہتے ہو وہ اسطرف قلانچیں بھرنے لگی.... شاید اسے یقین تھا کہ میں اسکے پیچھے او گا..... میںسر جھکائے دھوبی کے کتے کی مانند اسکے پیچھے چل پڑا....
ہاں....اب بولو.....اسنے گھونٹ بھرنے کے بعد کافی کا کپ میز پر رکھتے ہوے کہا....
آپک کا نام.....میں نے دوبارہ پوچھا.....
شیریں.....کھٹ سے جواب آیا....
میں نے کہا....بھے شیریں نام ہے....
جوگی کی کہانی ادھوری تھیکہ سے خیال آیا اور وہ اپنی جیبوں کو ٹٹولنے لگا.......کچھ لمحوں کے بعد اسنے مڑی تڑی تصویر نکالی جیسے الہ دین کے چراغ سے جن نکلتا ہے.....
یہ تصویر اس لالہ رخ کی..... وہ بولا.....
بہت سندر ہے.....میرو نے کھلے دل سے تعریف کی....
چلو اب کہانی کی طرف اتے ہیں......جوگی بہت جوشیلہ محسوس ہورہا تھا....
میں نے لڑکی سے کہا بہت شیریں نام ہے.....جواب میں شیریں نے شہادت کی انگلی سے میرے ہونٹوں پر دستک دیتے ہوے کہا.....بلکل تمہاری طرح......مجھے یاد ہے مجھے اس دن رات دیر سے پہنچنے پر اماں سے ڈانٹ پڑی تھی......ہفتے کا دن سہ پہر کا وقت تھا.....اور میری بے چین و بے و قرار نگاہیں گھڑی پر مرکوز تھیں....یا میں جلدی میں آگیا تھا یا اسے آنے میں دیر ہوگئی تھی...پھر وہ آگئی.....
ہم شاہ غازی کے مزار پر گئے......پھول چڑھائے شاہ غازی کی قبر پر.....پھول سجائے شیریں کی پیشانی پر.....ہم ساحل کی گیلی ریت پر چلے.....ہماری ہر ملاقات پر ہمساحل سمندر ضرور جاتے.....کیونکہ ہم جب پتھروں پر سر جوڑ کر بیٹھے ہوتے تھے اور ہوا میں نمی ہوتی تھی.....ہمارے سامنے چھوٹی بڑی سیپیوں کے ڈھیر ہوتے تھے....اور گیلی ریت سے بنا ایک گھروندا.....کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ ہماری آنکھ سے نکلنے والے آنسو ہماری اندر کی تپش کا نتیجہ ہیں یا فضا کا اثر ہے.... اس دن وہ رات گیارہ بجے گھر کوروانہ ہوئی.....میں سنسان سڑک پر تنہا کھڑا ٹیکسی کا انتظار کرتا رہا.....میں شیریںکے خیالوں میں گھوم تھا کہ اچانک اسکی گاڑی چرر کی آواز کے ساتھ میرے قدموں میں آکر رکی اور وہ بولی......میں بھول گئی تھی کہ تمہارے پاس گاڑی نہیں ہے....آؤ....آجاؤ......اسنے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا......
میں تمہیں کیوں یاد رہ گیا.....میں نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوے پوچھا......
مجھے ہر وہ شخص یاد رہتا ہے مجھ سے ملتا ہے.....
اور تم سے ملتے کتنے لوگ ہیں....میں نے پوچھا....
صرف تم.....اسکے چہرے پر کوئی تاثر نہں تھا....مگر میں محسوس کر سکتا تھا کہ اسکی کلی آنکھوں کی پتلیوں میں قوسقزح کا ہر رنگ باری باری اتر رہا ہے.....اسکے طلسمی ہونٹ پھڑپھڑا رہے ہیں اور اسکی دائیں آنکھ سے ننھا سا شبنمی قطرہ لمبی ناک کی آڑ لیے خاموشی سے اسکے نرم و ملائم گالوں سے ہوتا ہوا میرے اس ہاتھ پر آگرا جو میں نے اسکے ہاتھ پر رکھا ہوا تھا.......وہ شاید ایک ہاتھ سے گاڑی چلانے میں ماہر تھی....کیونکہ افق کے اس پار تک سڑک سنسان تھی.....زندگی کی سڑک....راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ نہیں تھی جو اسکو دوسرا ہاتھ استعمال کرنے پر مجبور کرتی
یوں مجھے دیکھتے رہو گے تو میں گاڑی کسی کھمبے سے ٹکرا دوں گی....
ٹکرا دو....زندگی نہ سہی موت تو تمہاری صحبت میں آئے گی.....
وہ ہماری دوسری ملاقات تھی اور اسکے بعد ملاقاتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا...ہم تاروں کی باتیں کیا کرتے.....ہم کہکشاؤں میں نام لکھا کرتے.....کلیاں چنتے اور بہاروں میں رقص کیا کرتے.....چاند ہمارے ساتھ آکر باتیں کیا کرتا.....اور ستارے ہمارے گرد جمع ہوا کرتے.....ہم ایک دوسرے کے آنسو پتے اور ایک دوسرے کی زندگی جیتے تھے.....مجھے یاد ہے وہ ایک دن میری گود میں سر رکھ کر لیٹی تھی... اور میرے لب اسکے شبنمی ہونٹوں کی طرف بڑھ رہے تھے تو اسنے شی کر کہ منع کردیا اور بولی...ایسا مت کرو.....اگر ان ہونٹوں کو تیرے ہونٹوں کے لمس کو عادت پڑ گئی تو میں مشکل میں پڑ جاؤں گی...یہ لب تڑپیں گے....ترسیں گے....اور مجھے یہ ڈر ہے کہ یہ کبھی پیار سے نہ رہ جائیں.....
وقت کے دیو نے اس دن اپنا رخ میری طرف کیا.....جب میں ایک بے فکرے جھینگر کی مانند ترانے گاتا چمن میں اڑان بھرتا تھا.......اپنی تتلی کے ساتھ،کلی کلی، گلاب گلاب پھدکتا تھا....گلاب کی پتیوں سے شبنم چکھتا تھا....اور شبنمی ہونٹوں سے پیاس بجھاتا تھا....شاید وقت کومیری خوشی منظور نہیں تھی....کہ سنے مجھے پیاسا ہی رکھا....اسکے والد ان لوگوں میں سے ایک تھے جن کا شہر میں سکہ چلتا تھا....اور وہ گوری اپنے باپ کے ہر حکم کی غلام تھی....ایک دن میں نے اس سے پوچھا تمہاری ماں کہاں ہے....؟ تو اسکی آنکھوں میں پانی سا آگیا اور اسنے شہادت کی انگلی سے تین چار مرتبہ اپر کی جانب اشارہ کیا....میں نے سر اپر اٹھا کر دیکھا تو ہر سو نیلے آسمان کی چادر تنی تھی....ہم دونوں کی نظریں ملیں ہم دونوں کو پلکوں پر ننھے ننھے قطرے جھلملا رہے تھے.... اسکے باپ کی طرف سے فیصلہ ہوا میں شیریں کا ہمسفر نہیں بن سکتا....یہاں تک کہ میںشیریں کی یادوں کو یاد کرنے کی جرات بھی نہ کروں....پھر مجھے اسکےآستانے سے اتنے پیار کہ ساتھ رخصت کیا گیا کہ جب میں گلی میں کھڑا خود کو اور اس عظیم و شان بنگلے کو دیکھ رہا تھا تو مجھے پاگل پاگل کا شور سنائی دیا....مڑ کر دیکھا تو کتنے ہی بچے ہاتھوں میںسنگ لیے مجھے مارنے کا اشارہ کر رہے تھے....اور فضا میں ایکترانہ سا گونج رہا تھا....
''اے شہر والوں کے سب سنگ جمع کررکھو
سنا ہے پچھلی شب کوئی دیوانہ ہو چکا ہے''
میں دو روز بعد شیریں کے گھر گیا......ابھی اس سے بات شروع ہوئی تھی کہ پل بھر میں وہ باپ کی 
مظبوط باہوں میں گرتی پھسلتی اوپر کی جانب گھسٹتی چلی جا رہی تھی....
مجھے اسکے باپ نے کہا تم اس لڑکی کے بارے میں سوچنا بھی مت....وہ لڑکی جو ہوا کے ذرا سے جھونکے پر نرم و ملائم شاخ کی طرح ڈولنے لگتی تھی.... وہ لڑکی جو بادلوں سے برسے بارش کے پہلے قطرے پر مچھلی کی طرح ترپتی تھی اور کوئل بن کلیوں کے گرد گھوم گھوم کر گانا گایا کرتی تھی.... وہ لڑکی جو بات کرنے سے پہلے ہلتی تھی اور ہلنے کے بعد بولتی تھی....اپنے باپ کے اس فیصلے پر ذرا نہ ہلی.... وہ ہل سکتی تھی مگر اسکے بدن کے ذرہ برابر بال نے بھی ذرا سی جنبش نہ کی اور میں جو ہر لمحہ پتھروں کی چٹان کی مانند پرسکون اور گندے جوہڑ میں کھڑے پانی کی طرح ساکت تھا.... جس پر کتنے ہی قسم کے حشرات الارض بھنبھناتے رہتے تھے....میں جو برگد کے پیڑ کی مانند بے حس و حرکت رہتا تھا....اس فیصلے پر اس شدت سے مچلا کے میرے انگ انگ میں لاوا سما گیا.....
شیریں کیا اس فیصلے پر تم خوش ہو...؟ میں نے چلا کر پوچھا....؟
ہاں..... تھوڑی سی خموشی کے بعد اس شدت سےآواز آئی جیسے دو پہاڑوں کے درمیان گونج سنائی دیتی ہے...
میں بولا....شیریں کیا تم بھول گئی ہو کہ ہم نے شاہ غازی کے مزار پر ایک دوسرے کے نام کے کنگن پہنے تھے... یاد ہے میں نے تمہاری سنہری زلفوں میں پیلے پیلے رنگوں والے گجرے سجائے تھے...اور تم نے کہا تھا....تم نے کہا تھا یہ پیلے پھول میری زلفوں میں رہیں.... اے خدا ایسا موقع نہ آئے کہ میں زرد پھولوں کو جھولی میں ڈال کر پتی پتی آنسو بہاوں....اور میں نے جھٹ سے تمہارے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا تھا.... شیریں یاد کرو جب ہم سینما میں بیٹھے فلم دیکھتے تھے اور ایک دوسرے کی آئیس کرام کھاتے تھے....ایک دوسرے کے سٹرا سے فانٹا پیتے تحے....لوگ کن انکھیوں سے ہماری جانب دیکھ کر مسکراتے تھے...اور بڑبڑاتے تھے...شیریں وہ کہتے تھے اے خدا ان دونوں کو صدا خوش رکھ......شاید تم بھول گئی ہو جب ہم سمندر کی گیلی ریت پر دوڑتے تھے تو لوگ ہمیں دیکھ دیکھ کر ہنستے تھے.........نہیں.......شاید وہ ہنس ہنس کر ہمیں دیکھتے تھے.... اور ہم سمندر میںدور تک پتھر پھینکتے تھے....تم نے کہا تھا جسکا پتھر دور جائے گا یہ زیادہ محبت کرتا ہے...اور مجھے یاد ہے.....میرا پتھر تمہارے پتھر سے پیچھے گرا تھا.....تمھیں شاید ریت پر بنائے ہوے کچے گھروندے اور وہ تصویریں بھول گئیں ہیں جو ہم ایکدوسرے کا ہاتھ پکڑ کر بناتے تھے...اور تمھیںشاید وہ کون آئیس کریم والا یاد نہیں جو کمپنی باغ کے باھر کھڑا ہوتا تھا......اور ہم دونوں کو دیکھ کر اس پر معنی خیز ہنسی امنڈھ آتی تھی....مجھے یاد ہے ایک دن اس نے ہمیں مفت آئسکریم کھلای تھی....اور پانے جھریوں والے پوپلے ہاتھ ہمارے سر پر پھیرے تھے.....اورسرگوشی کی تھی.....تم نے وہ سیرگوشی نہیں سنی تھی......وہ کہ رہا تھا...... کیا......؟
میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ میں کمرے میں اکیلا ہوں....شیریں اور اسکا باپ کب کا جا چکے تھے....مجھے خیال آیاکہ میری باتیں کون سن رہا تھا....؟
شاید وہ سرخ رنگ کا فون....میں دوڑ کر فون کے پاس گیا....اور بولا...
تم سب کی باتیں سنتے ہو....تم نے میری گریہ و زاری بھی سنی ہے.... تو یہ سب باتیں شیریں کو بتا دینا..... تو پھر میں کرسی پر چڑھ کر اس کلک کی طرف ہاتھ بڑھایا....
جو آٹھ بجے کا راگ الاپ رہا تھا....میں نے کلک اتار کر ہاتھ میں تھام لیا اور بولا....وقت اے وقت ....توں سب کی سنتا ہے......جو تیری نہیں سنتا....توں اسے بھول جاتا ہے....اے وقت دیکھ میں تیری ٹک ٹک سن رہا ہوں.....دیکھ میں نے تجھے ہاتھوں میں تھام رکھا ہے....لیکنتوں روکتا ہی نہیں....یہ شیشے جیسی رکاوٹ کیا ہے....وہ لمبی سی کلی سوئی اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے....اور تجھے مجھ سی دور کر رہی ہے....رک جا..... اے وقت رک جا....دکھ.....تو نے میرے ساتھ کیا کیا........ پھر میں شاید میز پر سجی اس مورتی کی طرف گیا.....اور بولا.....سنا تھا....پریاں غیبی امداد کرتی ہیں......میری پیاری لال پر دیکھ.....میرے آنسوؤں میں بھی تیرا عکس جھلکتا ہے....ذرا دیر کو سانس لے کہ میں تمھیں اپنی کتھا سنا سکوں....کمرے کی ہر چیز کو میں نے اپنا دکھ سنایا.... مگر کوئی بھی شے میرے دکھ میں ہمسفر نہ بن سکی.....اچانک اوپر والی منزل میںدوڑنے کی آواز آئی.....شیریں زرق کپڑوں میں ملبوس نیچے اتری اور چلائی....مرجاؤ....خود بھی مرجاؤ....اور مجھے بھی ختم کردو.....مگر یہ الم،یہ دکھ، یہ باتیں ان بے زباں اشیاء کے ذہن میں نقش نہ کرو کہ کالی سیاہ راتوں میں یہ چیزیں مجھے بچھوں کی طرح ڈنگ ماریں گی....طوفانی راتوں میں ایک ایک کر کہ میرے گرد خوفناک حویلوں کی طرح رقص کریں گی....شیریں مجھے باہر کے دروازے کی طرف دکھیلنے لگی اور دروازہ کھٹ سے بند کردیا.....مجھے یوں محسوس ہوا جیسے دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہریوں کو ایٹم بم گرنے کے بعد محسوس ہوا ہوگا کہ انکی زندگی کا پردہ یکدم تاریک ہوگیا ہے....میں ہر روز اسکے غیر گیا....واپس آیا تو میرے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ چیخ چیخ کر ان لوگوں کی میزبانی کا اعتراف کرررہا ہوتا تھا....اور میری قمیض کے کسی نا کسی کونے میں ایک نیا چیتھڑا نمودار ہو چکا ہوتا تھا......پھر ایک دن وہ بزار کو نکلی..... میں اسکے سامنے آگیا.....مجھے سامنے پاکر وہ اسطرح بدک کر رکی جیسے کوئی معصوم سا چوہا بے خبری میں کسی موٹی تازی بلی کے سامنے آجاتا ہے.... اس دن وہذرا دیر سے گھر پہنچی..... اس لیے کہ ہم نے کچ دیر کمپنی باغ میں ایک بڑی سی جھاڑی کے پیچھے بیٹھ کر باتیں کی تھیں...پھر خوش قسمتی سے وہ مجھے گھر میں مل گئی.....کتنا خوبصورت تھا یہ لمحہ......بلکل چودھویں کی رات کی طرح.... اسکے لبوں کے جام اور اسکی آنکھوں سے نکلے شراب کے قطرے، جنہیں چلو میں بھر کر میں نے حلق میں انڈیل لیا تھا اور سرور کی کیفیت میں میرے انگ انگ میں مستی چھا گئی تھی.....اس دن اسنے کہا تھا کہ ذرا ان ہونٹوں کو تیرے لبوں کا لمس محسوس کر لینے دو...... شاید کہ سری عمر پیاسا رہنا پڑے......اور میں شی کر کے اسے منع کردیا کہ کہیں عادت نہ ہوجائے.....پھر ایک گاڑی گیراج میں آکر رکی....... اسکے باپ نے ہم دونوں کو دیکھا توآپے سے باھر ہوگیا.....اسنے دراز سے پستول نکالا اپنی کنپٹی پر رکھا اور بولا.....
بول شیریں کون چاہیے.....؟
شیریں نے میری طرف دیکھا اور پھر اپنے باپ کی طرف اور پھر سامنے کلک کو دیکھا... آٹھ بج رہے تھے...... اسنے کرب کی شدت سے گردن بائیں طرف اپنے باپ کی طرف ڈھلکا دی....اس دفع آنسوں اسکی دائیں آنکھ سے نکلا تا کہ میں یہ دیکھ سکوں کہ یہ اسکے دل کا فیصلہ نہیں ہے.... میری زندگی شیشے کی اتنے چھوٹے چھوٹے ذرات میں تقسیم ہو کر رہ گئی کہ کوئی اسے شیشہ ماننے پر تیار نہ تھا.....
میں چیخا....چلایا....میری ہر فریاد بے اثر گئی....چند ساعتوں میں مجھے نرم و دبیز قالین سے مٹیالے فرش پر لاکھڑا کردیا گیا تھا......میرے سامنے فولادی دروازہ تھا جسے میں سری عمر بھی ٹکریں مارتا تو اسکی ایک میخ بھی اپنی جگہ سے ہلنے نہ پاتی..... کتنے ہی لمبے لمبے دن اور کتنے ہی سرد راتیں میں نے اس کے گھر کے باہر گزار دیں... مگر ایک مرتبہ بھی اوپر کے کمرے کی بتی روشن نہ ہوئی.....کسی ایک پل کو بھی کھڑکی کے پردے میں سرسراہٹ نہ ہوئی.....میں روتا رہا.....گھومتا رہا....ادھرادھر..... کوچہ کوچہ...قریہ قریہ.....کونہ کونہ.....مجھے معلوم تھا کہ وہ ہر شام آٹھ بجے کلاکسے باتیں کرتی ہوگی...اور پوچھتی ہوگی....میں کیا کہ کر گیا تھا...مجھے یقین تھا کہ وہ اسلال پر کے سامنے گھٹنے ٹیک کر بیٹھتی ہوگی....ٹھوڑی میز پر ٹیکاتی ہوگی اور دونوں ہاتھ سے مورتی کو پیار کرتی ہوگی...روٹی ہوگی...اور اس سے پوچھتی ہوگی میرا ساجن کیا کہ کر گیا تھا....اور روتی روتی اس میز پر سر ٹکا کر سو جاتی ہوگی...پھر کسی وقت سرخ فون کی گھنٹی اسکی نیند میں دخل انداز ہوتی ہوگی اور کمرے کے پردے طوفان بادباراں سے اڑنے لگتے ہونگے....کمرے کی ہر شے اسکے گرد رقص کرتی ہوگی....اور چاند اپنا چہرہ کھڑکی سے ہٹا لیتا ہوگا....
اس لڑکی کی چاہت مجھے جیل لے کر گئی.....اسکی وجہ سے مجھے ہسپتال کے اتنے چکر کاٹنے پڑے کہ لوگ مجھے ہسپتال کے عملے کا فرد سمجھنے لگے اور میں قسمت کے ہاتھوں دربدر کی ٹھوکریں کھاتا لاہور پہنچا ہوں...
جوگی نے شیریں کی تصویر جیسے میرو بہت مگن ہو کر دیکھ رہا تھا....اسکے ہاتھ سے کھینچ لی اور بولا، کہانی ختم، پاگل، اب جاؤ.....پاگل......وہ اٹھا اور سر دھنتا ہوا اپنے راستے کو ہولیا...
میرو نے آسمان کی طرف دیکھا تو چاند سفر طے کرتا ہوا اسکے سرپر ان پہنچا تھا..... یاد آیا، سیمو کا ڈنر.....یاد آیا بچوں کا فنلینڈ.....یاد آئی اماں ابا سے ملاقات....اور جوگی کی درد بھری داستان....
سیمو نے حسب روایت پتھر چہرے کے ساتھ میرو کا استقبال کیا..... باقائدہ بچوں کے کمرے کا دروازہ کھول کر انکا درشن کروایا کہ وہ صدیوں کا انتظار کرتے کرتے نیند کی آغوش میں جا سوے ہیں.....مگر انکی پلکیں لمہ با لمہ پھڑپھڑا رہی ہیں...تم کبھی وقت پر نہیں آئے.....میری کوئی قدر نہیں....میں صرف اس لیے ہوں کہ کھانا بنا کر رات گے تک تمہارا انتظار کروں.....وہ اٹھ کر سیمو کے پاس گیا اور بولاسیمو وہ کلاک دیکھ رہی ہو..... آج اس کلاک کا وقت ہمارے ہاتھ میں ہے... یہ فون دیکھ رہی ہو سیمو... ہم ایک دوسرے کے دکھ فون کو نہیں سناتے....اور سیمو وہ شیشے کی گڑیا دیکھ رہی ہو جسی کے ہاتھ میں ستارے والی چھیڑی ہے..... میں ڈرتا ہوں مجھے یا تمہے کبھی میز کنارے بیٹھ کر اس گڑیا سے باتیں نہ کرنی پڑیں....میری دنیا تم ہو....باقی سب پاگل.....کلک بارہ بجے کا گیت سنا رہا تھا....کھڑکیوں کے پردوں سے چاندی چھن چھن آرہی تھی...... وہ دونوں میاں بیوی کمرے کے درمیان بغل گیر تھے...کمرے کی ہر شے انکے گرد رقص کر رہی تھی.....انکو معلوم ہی نہ ہو سکا دروازے کی جھری سے ان دونوں بچوں کی آنکھیں انہیں دیکھ رہی ہیں...آخر کو بچے بھی باپ کا انتظار کر رہے تھے...اچانک بچے باہر کو دوڑ آئے اورماں باپ کے گرد رقص کرنے لگے....گانے لگے.....پاگل پاگل....سری دنیا....پاگل پاگل....
اگلے دن میرو دفتر سے واپسی پر پھر اس جوگی کا ناچ دیکھنے کے لیے روک گیا... موسم خنک تھا.....جہاں زمیں و آسمان لب بہ لب ہوتے ہیں...وہاں سرخی پھیلی ہی تھی.... فضا میں دو کبوتر چونچیں لڑا رہے تھے....ایک کوئل گیت گا رہی تھی اور کسی کو تلاش کر رہی تھی....
انجن کا ہارن بجا....اور گاڑی سٹیشن پر آکر رکی....خوبصورت کپڑوں میں ملبوس ایک عورت دوڑتی ہوئی ہجوم کی طرف آئی....لوگوں نے اسکے لیے اسطرح راستہ بنایا جیسے دریاے نیل نے موسی کی قوم کے لیے راستہ بنایا تھا...وہ عورت جوگی کے قریب آئی....زمین سے دو مٹھی مٹی بھر کر اپنے سر پر ڈالی.....پھر اپنے کپڑوں کو مٹیالہ کیا..... آستین پھاڑی....جوگی کا ہاتھ پکڑا....دونوں نے بازو فضا میں بلند کیے.... سر جھکائے..... سر ہلاے....دائیں سے بائیں.....بائیں سی دائیں.... اور پیر تھپک تھپک کر رقص کرنے لگے... سر دھننے لگے... اب کی بار ایک گھنٹی جوگی جب کہ دوسری جوگن کے ہاتھ میں تھی..... لوگوں کا ہجوم تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا تھا... اور فضا ان الفاظ سے گونج رہی تھی....
پاگل پاگل.......ہم سب پاگل.......تم سب پاگل........دنیا والے سارے پاگل.......
میرو نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا کہ کوئل خاموش تھی اور اپنے ساتھ کے ساتھ اڑان بھر رہی تھی...اسنے گھڑی پر وقت دیکھا....آٹھ بجے تھے....یہ وقت کراچی سے آنے والی گا'ڑی کا تھا....وہ مسکرایا اور آگے بڑھ گیا....جوگن کی کہانی سننے کے....
------------------------------------------ختم شد---------------------------------

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں