اُرْدُو اَدَب

اُرْدُو اَدَب
پاکستان کی آواز

پیر، 18 جولائی، 2016

شام کی ضرورت نہیں رہی.. ؟

27جنوری 2014کا اخباراردو نیوز دیکھ رہا تھا کہ اس میں شام کی صورت حال کے تعلق سے چھٹے جنیوا کنونشن کے موقع پر شائع ہونے والے ایک کارٹون پر نگاہیں جم گئیں۔ایک تصویر میں پہلے جنیوا کنونشن کے بورڈ کے نیچے ایک مردہ شخص کی کھوپڑی دکھائی گئی تھی۔ دوسرے
کنونشن کے بورڈ کے نیچے دس کے قریب کھوپڑیاں، تیسرے کے نیچے کوئی سو سے اوپر کھوپڑیاں،چوتھے کے نیچے دس ہزار کے قریب اور پانچویں کے نیچے لاکھ کے قریب کھوپڑیاں دکھا کر چھٹے کنونشن کے بورڈ کے نیچے لکھا گیا تھا:
”معاف کیجیے گا! شام میں سارے لوگ ختم ہو گئے ہیں اب کسی جنیوا کنونشن کی ضرورت نہیں رہی“۔
اس کارٹون نے سرزمین شام کے حوالے سے میرے زخموں کو تازہ کردیا ہے۔ میں اس ملک شام کو یاد کرنے لگا جس سے میں شدید محبت کرتا ہوں۔پھر میں نے سوچا کہ ایسا وقت کب آئے گا جب میں ایک بار پھر پر امن دمشق میں جاسکوں گا۔ مسجد اموی میں نماز ادا کروں گا۔ ”جبل قاسیون“ پر جاکر شاورما کھاؤں گا۔ آئیے میرے ساتھ، اس ملک کے حوالے سے کچھ سنہری یادیں تازہ کرتے ہیں۔
میں نے اپنی زندگی میں اس کرہ ارضی کے مختلف ممالک کے بے شمار سفر کیے ہیں۔ شام جسے سوریا بھی کہتے ہیں میرے لیے دوسرے گھر کی طرح رہا ہے۔ آج اس خوبصورت اور مبارک ملک میں خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ شہید ہوچکے ہیں۔ اس ملک کے ساتھ میری بہت ساری  یادیں وابستہ ہیں۔ شام کے حوالے سے میں یہ عرض کردوں کہ یہ وہ علاقہ ہے جس کو قرآن مجید کی سورۃ”الاسراء“ میں ارض مبارکہ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی تھی۔ آپ نے بارگاہ الہی میں عرض کیا:’اللَّہُمَّ بَارِک لَنَا فِي شَامِنَا وَفِي یَمَنِنَا‘ ”اے اللہ ہمارے لیے ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت پیدا فرما“۔
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ مجھے بچپن ہی سے شام کو دیکھنے کا بڑا شوق تھا مگر یہ ماننے اور لکھنے میں کوئی حرج بھی نہیں کہ مجھے تاریخ سے بے حد دلچسپی تھی۔ والد محترم محمد یونس کیلانی رحمہ اللہ نے میری تربیت میں بے حد دلچسپی لی،انہوں نے بہت محنت و کوشش کی۔ وہ مجھے بڑے مقام پر دیکھنا چاہتے تھے۔ کتابت کے دوران وہ مجھے اپنے پاس بٹھالیتے۔ مشاہیر اسلام کے واقعات سناتے۔ جنگوں اور غزوات کی باتیں بھی آتیں۔ جب بھی حافظ آباد یا اس کے گرد نواح میں کوئی جلسہ یا تبلیغی پروگرام ہوتا تو بڑے شوق سے خود بھی اس میں شرکت کرتے، مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ ان جلسوں اور پروگراموں سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ چھوٹی ہی عمر میں بہت ساری باتیں دل ودماغ پر نقش ہو گئیں۔ اسی زمانے میں مجھے عرب ممالک کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس زمانے کے حالات میں کون سوچ سکتا تھا کہ میں ان عرب ممالک میں جاؤں گا اور متعدد بار جاؤں گا۔
شام میں تو مجھے اتنی بار جانے کا اتفاق ہوا کہ خود مجھے بھی صحیح گنتی یاد نہیں۔  جب میں پہلی مرتبہ دمشق سے حماہ، حلب گیا تو ان میدانوں کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا کہ یہ وہ یاد گار مقامات ہیں جہاں سے اسلامی مجاہدین گزرے تھے اور انہوں نے یہاں اپنی حکومت قائم کی تھی۔
آج سے دس سال پہلے جب دارالسلام کی ترقی عروج پر تھی، میں عموماً ریاض سے دمشق جاتا، پھر دمشق سے بذریعہ ٹیکسی بیروت جاتا۔ بیروت میں دو یا تین دن گزارتا۔پھر واپسی کے لیے بیروت سے
ریاض کے لیے ہوائی سفر ہوتا۔ یہ سفر میں نے اتنی بار کیے کہ شام اور لبنان کے سفارت خانوں کا عملہ میری شکل وصورت اور پاسپورٹ سے بڑی حد تک واقف ہوچکا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی ایک خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ میرا پاسپورٹ لیتے اور اس پر ملٹی پل ویزا لگا کر چند گھنٹوں میں یا زیادہ سے زیادہ اگلے دن واپس کردیتے۔ اس زمانے میں میرے پاس عبدالقادر نامی ایک بنگالی کام کرتا تھا۔ یہ بینک میں بھی جاتا، ڈرائیونگ بھی کرتا اور عموماً میرے لیے ویزے بھی لگوالاتا۔ ویزے کی فیس بھی برائے نام ہی تھی۔ یعنی 50 ریال سے بھی کم تھی۔ میرا ٹریول ایجنٹ اشرف نامی شخص تھا۔ جب میں اسے کہہ دیتا کہ مجھے فلاں دن اور فلاں وقت جانا ہے تو وہ بلاتاخیر میرے لیے سیٹ کا بندوبست کردیتا۔ اسے معلوم ہوتا تھا کہ مجھے اس تاریخ پر جانا ہی جانا ہے۔ ائرپورٹ کے لوگ بھی مجھے پہچانتے تھے۔ عموماً میں کاؤنٹر سے فارغ ہونے والا آخری مسافر ہوتا۔ جس طرح مجھے سفر کے لیے سیٹ کی ضرورت ہوتی تھی اسی طرح ایرلائن والوں کو بھی پیسنجر کی ضرورت ہوتی تھی۔ میں نے ان کو بعض کتابیں بھی تحفہ میں دے رکھی تھیں۔ میں جب بھی جاتا تووہ مسکراکر استقبال کرتے۔
مجھے پہلی مرتبہ 1986 میں سوریا یعنی شام جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ چند دن میں دمشق میں رہا۔ بچپن سے جامعہ اموی کے بارے میں پڑھتا اور سنتا چلا آرہاتھا۔ اموی مسجد ایک زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی مسجد تھی۔ اس مسجد کو اموی مسجد اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسے مشہور اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم پر 86تا 96 ہجری میں بنایا گیا۔ یہ مسجد آج بھی نہایت خوبصورت اور بہت ہی بڑی ہے۔ اموی مسجد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ حضرت یہاں عیسی علیہ السلام کی آمد سے 1200 سال پہلے رومانوی دور سے ایک مندر تھا، جہاں بتوں کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔ جب عیسی علیہ السلام کا دور آیا تو یہ چرچ میں تبدیل ہوگیا۔ مسلمانوں نے دمشق کو سیدناعمرفاروقؓ کے دور خلافت میں فتح کیا۔ مسلمان فوج دو حصوں میں تقسیم تھی۔ایک کی قیادت سیدنا خالد بن ولیدؓ اور دوسرے حصے کی قیادت سیدنا ابوعبیدہ بن جراحؓ کے ہاتھوں میں تھی۔ سیدنا ابوعبیدہ بن جراحؓ نے آدھا شہر صلح کے ذریعہ حاصل کیا۔ دشمن نے امان، اپنے مذہبی مقامات کا تحفظ، جان ومال کی پناہ مانگی جو عطا کردی گئی۔ ان کے برعکس سیدنا خالد بن ولیدؓ نے دشمن سے مقابلہ کرکے آدھا
شہر فتح کیا۔ اس طرح اس چرچ کا نصف حصہ مسجد بنادیا گیا اوربقیہ نصف چرچ ہی رہا۔ اس مسجد کے بالکل متصل ”السوق الحمیدیہ“ ہے جو مشہور عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کے نام پر ہے۔یہ دمشق کا سب سے مشہور بازار ہے۔یہ کیسا بازار ہے اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو لاہور کا کشمیری بازار دیکھ لیں۔بازار کی چوڑائی کوئی بہت زیادہ تو نہیں، مگر الحمیدیہ ہر وقت گاہکوں سے بھرا رہتا ہے۔ اس بازار میں آپ کو دنیا کی ہر چیز مل جائے گی،البتہ دوسری چیزوں کی نسبت بچوں اور عورتوں کے کپڑوں کی دکانیں کثرت سے ہیں۔ میں بات کررہاتھا کہ مسجد اموی کو خلیفہ ولید بن عبدالملک نے ان الفاظ کے ساتھ بنانے کا حکم دیا: ”یہاں دنیا کی افضل ترین اور خوبصورت ترین عمارت بنائی جائے۔“
جب اس کی تعمیر شروع ہوئی تو چرچ والے حصے کو بھی مسجد میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دمشق کے عیسائیوں نے اس پر شور مچایا کہ ان کی موافقت اور رضامندی کے بغیر چرچ کو مسجد میں شامل کیا جا رہاہے۔ولید بن عبدالملک نے ان کے نمائندوں کو بلایا، ان سے میٹنگ کی اورپیش کش کی کہ وہ انہیں چرچ کی منہ مانگی قیمت دینے کے لیے تیار ہیں، مگر عیسائی نہ مانے۔ ولید کو ایک نئی ترکیب سوجھی۔ شہر میں فتح کے بعد سارے چرچ بند پڑے تھے۔ اس نے پیش کش کی: ”اگر تم لوگ رضا مندی سے چرچ کی جگہ مسجد کو دے دو تو ہم دمشق میں تمام چرچ عیسائیوں کو واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔“ یہ پیش کش غیر معمولی تھی۔ عیسائی پادریوں نے باہمی مشورے، اتفاق اور رضامندی سے چرچ کی جگہ مسجد کو دے دی۔ خلیفہ نے اپنے وعدے کے مطابق دمشق کے تمام چرچ عیسائیوں کو واپس کردیے۔
مسجد اموی کم وبیش تیس کنال یعنی چار ایکڑ رقبہ میں بنی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے اردگرد پارکنگ کے لیے کھلی جگہ ہے۔ میرا اپنا اندازہ ہے کہ یہ جگہ بھی چار ایکڑ سے کم نہ ہوگی۔ تعمیر میں بارہ ہزار افراد نے حصہ لیا اور دس سال کی مسلسل جد وجہد کے بعد اسے مکمل کیا گیا۔ کہاجاتا ہے کہ اس کی تعمیر کا خرچ ایک ملین دینار تھا جو ولید بن عبدالملک نے بڑے کھلے دل سے مہیا کیا۔ اس کے معماروں میں قبطی، ایرانی، انڈین، یونانی اور مراکشی کاریگر شامل تھے۔ مسجد میں ایک چیز بڑی اہم ہے۔یہ مینار عیسیؑ ہے جس کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قیامت کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام اس مینار پر اتریں گے۔ اس مینار کی بلندی 77 میٹر ہے۔ اس مسجد کی ایک اور خوبی بھی عرض کردوں کہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے کسی مسجد کا جو مینار بنا وہ مسجد اموی ہی کا بنا تھا۔ اب اس میں تین منار ہیں۔
مسجد سے باہر نکلیں تو کوئی دو تین منٹ کی مسافت پر قبرستان ہے جس کے کنارے پر مشہور مسلم ہیرو صلاح الدین ایوبی کی قبر ہے۔ اس کے ساتھ والی قبر نورالدین زنگی کی ہے۔ میں نے ایک ثقہ سعودی عالم دین کی تقریر سنی کہ افواج فرانس کا کمانڈر انچیف ہنری گراڈ (Henri Giraud) 1920میں معرکہ میسلون میں فتح حاصل کرنے کے بعد بطور خاص صلاح الدین ایوبی کی قبر پر گیا، قبر کو دیکھا تو اس کو صلیبی جنگوں میں اپنی شکستیں یاد آگئیں۔ اس نے اپنا ناپاک پاؤں قبرپر مارتے ہوئے کہا: اٹھو! صلاح الدین اٹھو! دیکھو ہم فتح
یاب ہوکر واپس آگئے ہیں۔ میں جب صلاح الدین ایوبی کی قبر پر گیا تو کتنی ہی دیر تک کھڑا ان کے دعائے مغفرت کرتا رہا۔ یہ عظیم مجاہد بہت بڑا موحد مسلمان تھا۔ صاحب عقیدہ اور صاحب عزیمت تھا۔ کاش مسلمانوں کو اس جیسا ایک کمانڈراور مل جائے…… میں نے دل ہی دل میں دعا کی۔ اس مسجد کے ساتھ ہی دمشق کا وہ مشہورِ زمانہ قلعہ ہے جس کی ایک کوٹھری میں امام ابن تیمیہؒ مدتوں قید رہے۔ میں جب بھی دمشق جاتا اس قلعہ کے سامنے کھڑے ہوکر امام ابن تیمیہؒ کو ضرور یاد کرتا اور انھیں خراج تحسین پیش کرتا۔ مجھے ان کی قبر پر بھی جانے کا اتفاق ہوا۔ ان کی قبر کچی ہے ساتھ والی قبر امام ابن کثیرؒ کی ہے۔ اس وقت یہ ایک مستعفی ولادہ (Maternity Hospital)کے اندر ایک چھوٹے سے احاطہ میں ہیں۔ میں نے یہ قبریں محدث شام شیخ عبدالقادر ارناؤط کے ہمراہ دیکھی تھیں۔ وہی مجھے اس جگہ لے گئے تھے۔
مسجد اموی میں مجھے کتنی ہی بار نمازیں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ غالباً دو مرتبہ جمعہ کی نماز بھی ادا کی۔ نماز جمعہ کے بعد امام مسجد کے ساتھ ملاقات بھی کی۔ میں بلاشبہ شام اور بطور خاص دمشق کوبہت پسند کرتا ہوں۔ اہل شام کے ساتھ میری بڑی دوستیاں ہیں۔ وہاں درجنوں کے حساب سے لوگ مجھے جانتے اور پہچانتے ہیں۔اس شہر کی اپنی ایک خوبصورت تاریخ ہے۔ کہتے ہیں: یہ دنیا کا قدیم ترین شہر ہے۔ ممکن ہے بعض لوگ یہ کہیں کہ نہیں! فلاں شہر اس سے بھی زیادہ قدیم ہے۔ اس بحث میں پڑے بغیرمیں یہ کہوں گا کہ یہ شہر بلاشبہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔
ریاض سے سعودی ایئر لائن کوئی ڈیڑھ سے پونے دو گھنٹوں میں دمشق ائر پورٹ پہنچ جاتی ہے۔ یہاں ایک مدت سے اشتراکی نظام حکومت قائم تھا۔ یہ ملک مدتوں روس کے زیر اثر رہا ہے۔ اس لیے یہاں روسی زبان بولنے اور سیکھنے والے بھی مل جاتے ہیں۔دمشق کا مسافر جب اپنی منزل کے قریب پہنچتا ہے تو ہوائی جہاز ہی میں اسے لینڈنگ کارڈ تھمادیا جاتا ہے۔ دمشق کے وسط میں ایک محلے کا نام ”حلبونی“ ہے۔ یہاں ایک

چھوٹے سے ہوٹل کا نام دارالسلام تھا۔ لینڈنگ کارڈ میں ایک سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کا قیام کس ہوٹل میں ہوگا؟ اس کا نام اور ایڈریس لکھیں۔ تو کسی اور ہوٹل کا نام یاد رہے یا نہ رہے مگر ”دارالسلام“ کا نام تو کسی طور بھولنے والا نہیں تھا۔میں بلاتامل ایڈریس کے خانہ میں ”دارالسلام حلبونی دمشق“ لکھ دیتا۔ پہلی مرتبہ جب  دمشق گیا تو میں ترکی کی سیر کرتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔ استنبول سے سورین ایئر لائن کے ذریعہ جب دمشق پہنچا تو امیگریشن لائن میں بڑی خاموشی سے کھڑا ہوگیا۔ مجھے بتا دیاگیا تھا: یہ لوگ داڑھی والے کو پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، بس خاموش کھڑے رہنا۔ دو لائنیں عربوں کی اور عرب پاسپورٹ رکھنے والوں کی اور ایک قطار غیر عربی پاسپورٹ رکھنے والوں کی ہوگی۔ میں خاموشی اور بڑے صبر وتحمل سے اپنی باری کا انتظار کرتا رہا۔ جب میری باری آئی توامیگریشن آفیسر نے زہر آلود نظروں سے مجھے سر سے پاؤں تک گھور کر دیکھا اور بڑے کرخت عربی لہجے میں پوچھا: تم میرے ملک میں کیا لینے آئے ہو؟ میں نے اس کے سوال کو نظر انداز کرکے انگلش میں ”جامعہ اموی“ کا نام لیا۔ اسے بتایا کہ میں بچپن سے اس عظیم مسجد کو دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ آج میری یہ تمنا پوری ہو نے جا رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اسے انگلش نہیں آتی تھی۔ اس نے میرے پاسپورٹ کو دائیں بائیں سے نفرت بھری  نگاہوں سے دیکھتے ہوئے مہر لگا دی۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور سامان لینے کے لیے باہر کی طرف چل دیا۔ دمشق ائرپورٹ بہت چھوٹا اور پرانا ہے، تاہم ایک زمانے میں یہاں شراب کی بہت بڑی دوکان تھی جو اب ختم ہوگئی ہے۔
دمشق ائر پورٹ پر میرے ساتھ بہت سارے تجربات ہوئے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب میں قطار میں کھڑا تھا۔ عموماً میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتا، اس لیے کہ امیگریشن سے جلد چھٹکارا مل بھی جائے تو سامان کافی تاخیر سے آتا ہے۔ ایک پولیس والا آیا تو بڑے ادب سے بولا: شیخ! آپ یہاں آخر میں کیوں کھڑے ہیں۔اس نے میرا پاسپورٹ اپنے ہاتھ میں لیا اور لائن کے شروع میں کھڑا کرکے کہنے لگا: آپ اس بات کے مستحق ہیں کہ آپ سب سے پہلے فارغ ہوں۔
ایک مرتبہ تو حد ہوگئی کہ میں ہوائی جہاز کے دروازے سے نکلا تو ایک لڑکی میرے نام کا سائن بورڈ ہاتھوں میں لے کر کھڑی تھی۔ میں نے تعجب سے دیکھا تو پیچھے سے میرے سعودی دوست کی آواز آئی: شیخ عبدالمالک! یہ تمہارا ہی نام ہے۔ میں نے لڑکی کو اشارہ کیا کہ میں ہی عبدالمالک ہوں، اس کے ساتھ ہی ایک باوردی ملازم نے میرا ہینڈ کیری پکڑ لیا اوروہ پورے پروٹوکول کے ساتھ مجھے وی آئی پی لاؤنج میں لے گئے۔ یہ وہی لاؤنج تھا جہاں پر بادشاہوں اور بڑی بڑی شخصیات کا استقبال کیا جاتا ہے۔ بڑے ادب سے مجھے بٹھایا گیا۔ انھوں نے میرا پاسپورٹ لیا اور اسے سٹیمپ کروانے لے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد نہایت قیمتی برتنوں میں چائے آگئی۔ میں نے اس خوبصورت کمرے کا جائزہ لیا۔ بلاشبہ یہ جگہ وی آئی پی لوگوں کے لیے بنائی گئی تھی۔اتنی دیر میں میرا میزبان استاذ ہانی آگیا۔ السلام علیکم کہتے ہوئے اس نے گرمجوشی سے مجھے گلے لگالیا۔ آج شام میری ایک بہت بڑی کمپنی ”نیو بوائے“ کے مالک کے ساتھ میٹنگ تھی۔ یہ سارا اہتمام اور استقبال کا بندوبست انہی کی طرف سے تھا۔
ایک ملازم آیا تو کہنے لگا: اپنے سامان کا ٹیگ دے دیں۔ میں نے اسے ٹیگ تھمایا۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ ٹرالی پر میراسامان لیے ہوئے آگیا۔ استاذ مجاہد! اپنا سامان چیک کرلیں۔ یہ آپ ہی کاہے نا۔ میں نے اپنے اٹیچی کیس کو ایک نظر دیکھا اور موافقت کا اظہار کر دیا۔ چار پانچ باوردی ملازموں کے جلو میں مجھے ائر پورٹ سے باہر نکالا گیا۔ سامنے مرسیڈیز گاڑی کھڑی تھی۔ استاذ ہانی نے سٹیرنگ سنبھالا، اب ہمارا رخ دمشق کی طرف تھا۔ ائر پورٹ سے شہر کوئی تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہوگا۔ راستہ میں ”غوطہ“ نامی جگہ آتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سیدنا امیر معاویہؓ رہا کرتے تھے۔یہیں ان کے محلات اور باغات تھے۔ بعد میں آنے والے اموی خلفا نے اسی جگہ پر اپنے محلات تعمیر کیے۔ یہ جگہ شہر سے کوئی پانچ سات کلو میٹر کے فاصلے پر ہوگی۔ اب یہاں پر اموی محلات ہیں نہ وہ باغات ہیں جن کا ذکر ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔یہاں اب کھیتیاں ہیں جن میں فصلیں اگتی ہیں۔ اس خطے کی گندم دنیا کی سب سے اچھی اور اعلیٰ گندم سمجھی جاتی ہے۔
دمشق بہت بڑاشہر نہیں ہے۔ اندرون شہر بالکل اندرون لاہور کی طرح ہے۔ انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل شہر کے پوش علاقے میں ہے۔ یہاں سے مسجد اموی زیادہ دور نہیں۔ ہوٹل کے سامنے حد نگاہ تک کھلی جگہ تھی جس کا نام ”ساحۃ امویۃ“ ہے۔ شہر کے شمال مشرق کی طرف دیکھیں تو اوپر”جبل قاسیون“ ہے۔ دنیا کا سب سے قدیم پہاڑ جس کے بارے میں روایت ہے کہ آدم علیہ السلام کی بیٹے قابیل نے ہابیل کو اسی جگہ قتل کیا تھا۔ یہاں ایک خانقاہ بھی ہے ایک لمبی سی قبر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہابیل کی قبر ہے۔ جبل قاسیون میری سب سے پسندیدہ جگہ ہے۔ میں شروع دن ہی سے  اس مقام کو بہت پسند کرتا ہوں۔شہر سے یہاں پہنچنے تک قریبا آدھ گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ شروع میں یہاں پہاڑ کاٹ کر سڑک بنائی گئی تھی جس کے کنارے ایک چھوٹی سی دیوار تھی۔ شام کوعموماً یاسر طباع مجھ سے پوچھتا: عبدالمالک! رات کا کھانا کہاں پسند کروگے؟ عموماً میرا جواب ہوتا:جبل قاسیون پر۔ دمشق کے کھانے بلاشبہ بڑے لذیذ ہوتے ہیں۔ ہم نیچے سے کباب، شاورما، سلاد اور کچھ دوسری چیزیں خرید کر اوپر لے جاتے۔ جبل قاسیون پر ایک چھوٹی سی دیوار تھی جو سڑک اور نیچے کی کھائی کے درمیان تھی۔ اصل چیز جو میرے دلچسپی یا کسی بھی سیاح کے لیے دلچسپی کا باعث ہوسکتی ہے وہ رات کا منظر ہے۔ یہاں سے پورا دمشق نظر آتا ہے۔ رنگ برنگی بتیاں، بجلی کے بلب اور شہر کی لائٹیں اس طرح نظر آتی ہیں گویا آسمان سے تارے نیچے اتر آئے ہوں۔ دمشق ایک پیالے کی طرح نظر آتا ہے اور وہ پیالہ رنگ برنگی روشنیوں سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے تو یہ منظر بالکل اس طرح لگتا ہے جیسے چمکتے ہوئے لاکھوں ہیرے اور جواہرات ایک جگہ جمع کر دیے گئے ہوں۔غور سے دیکھیں تو اس پیالے کے بائیں طرف ”مسجد اموی“  بھی نظر آجاتی ہے۔
میں اس منظر کو گھنٹوں دیکھتا رہتا۔ یاسر طباع، اس کا بھائی عمر اور میں اس چھوٹی سی دیوارپرآلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے۔ اپنے سامنے کبابوں اور شاورما کی پلیٹ رکھ لیتے۔ یہ جوانی کا زمانہ تھا۔ میرے علم کی حد تک سب سے زیادہ مزیدار کباب تین ملکوں میں ملتے ہیں۔ کہتے ہیں: اصل میں یہ ڈش ”ترکی“ ہے۔ ترکی یہاں
سے بہت زیادہ دور نہیں۔ ایک زمانے میں استنبول سے دمشق اور پھر دمشق سے مدینہ منورہ ریل کے ذریعہ آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ آج بھی دمشق کے وسط میں علامتی طور پراس دور کا ریلوے اسٹیشن اور انجن موجود ہے۔ عثمانی دور خلافت میں خلیفہ المسلمین ترکی، شام اردن، لبنان اور سعودی عرب میں واقع حجاز کے علاقے پر حکومت کرتے تھے۔ اس دور میں پاسپورٹ ہوتا تھا نہ ویزا اور نہ ہی امیگریشن کی رکاوٹیں تھیں۔  خیر آج کے دور میں بھی شام کے باشندوں کو لبنان، اردن مصر، یمن، مراکش،الجزائر کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے شام میں ان ملکوں کے طالب علموں کو بازاروں میں علم کی تلاش میں پھرتے دیکھا ہے۔
میں بتا رہاتھا کہ جبل قاسیون پر بیٹھ کر ہم آپس میں باتیں بھی کرتے جاتے، کباب اور شاورما بھی مزے لے لے کر کھاتے۔ اس دوران میری نگاہیں دمشق کے اس خوبصورت منظر پر ہوتیں جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ میں نے درجنوں بار اس جگہ بیٹھ کر رات کا کھانا کھایا ہے۔ موسم اتنا شاندار کہ سخت گرمی کے موسم  میں بھی یہاں خنکی محسوس ہوتی ہے۔ ایک زمانے میں یہاں زیادہ رش نہ ہوتا تھا۔ حکومت نے نیچے”الجُندِي المَجہُولُ“ کے مقام پر چاروں طرف بڑی بڑی ٹی وی سکرینیں لگا رکھی تھی۔ سر شام مرد، عورتیں، بچے، بچیاں یہاں پر آجاتے۔ اکثر فولڈنگ کرسیاں ساتھ لے کر آتے۔ چائے اور قہوہ کی تھرماس سامنے رکھی ہوتی ہیں۔ سکرینوں پر فٹ بال میچ چل رہے ہیں۔ حقہ جسے یہاں کی زبان میں ”شیشہ“ کہتے ہیں، اس کا رواج عام ہے۔مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شیشہ پیتی ہیں۔ لوگ اپنے حال میں مست ہیں۔ رات گئے تک یہ شغل چلتا رہتا ہے۔جبل قاسیون پر اب تو بڑے بڑے خوبصورت ریسٹورنٹ بن گئے ہیں۔ خاصے مہنگے ریسٹورنٹ، جن میں اب دنیا جہان کے کھانے ملتے ہیں، مگر جو سادگی اور مزا اس دیوار پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا تھا وہ بڑے مہنگے ریسٹورنٹس میں بھی نہیں ملتا۔ میں نے جبل قاسیون پر جو لطف اٹھایا تھا وہ اب شاید دوبارہ نصیب نہ ہو۔ اس ملک کے حالات جس تیزی سے خراب ہوئے ہیں اس کے سبب یہ بہاریں اور نظارے ختم ہوچکے ہیں۔ گزشتہ تین چار سال سے جاری خانہ جنگی نے اس ملک کو بیس سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔
میں نے اس ملک کو ترقی کرتے دیکھا، شہر سے باہر”بوابہ دمشق“ نامی ریسٹورنٹ میں سیکڑوں کی تعداد میں کرسیاں لگی ہوتی تھیں۔یہاں چھوٹی چھوٹی مصنوعی ندیاں بنائی گئی ہیں۔ جن میں پانی کے ساتھ ساتھ مچھلیاں بھی تیرتی ہیں۔ عربوں کے کھانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ بہت زود ہضم اورہلکے پھلکے ہوتے ہیں۔ تیل بہت کم استعمال کرتے ہیں اور مرچ مصالحہ کا کوئی تصور نہیں۔ عموماً کھانوں میں مشویات یعنی کوئلوں پر بھنی ہوئی غذائیں چلتی ہیں۔ سلاد کی ان گنت اقسام ہیں۔ ہم ٹیبل پر بیٹھتے تو ”حمص، فتوش، بابا غنوج، فتہ، فتہ بالزیت اور سلاد جیسی چیزوں سے ٹیبل سج جاتے۔ گرما گرم روٹی بڑی مزیدار اور نہایت باریک پتلی، منہ میں ڈالتے ہی گھل جانے والی ہوتی ہے۔ عرب ممالک میں روٹی ہماری تنوری طرز پر نہیں بنتی بلکہ یہ آٹومیٹک پلانٹوں پر بنائی جاتی ہے۔ جب ہم بیروت سے دمشق واپس آئے تو راستہ میں روٹی کے ایسے کئی پلانٹ لگے
ہوئے تھے۔ ڈرائیور اور سواریاں روٹیوں کے بنڈل اٹھاکر لے آتے۔ عربی زبان میں وہ انہیں ”ربطہ“ بولتے ہیں۔ خیر یہ بات پورے وثوق کے ساتھ لکھ سکتا ہوں کہ جو مزیدار کھانے میں نے دمشق اور بیروت میں کھائے ہیں اورکہیں نہیں کھائے۔ خصوصاً کھانے کھلانے کا جو ذوق اور طریقہ ان ممالک میں ہے وہ کہیں نہیں کہ باوردی مؤدب خادم آپ کے سر پر کھڑا ہے، آپ نے ذرا سا اشارہ کیا اس نے مطلوبہ چیز فوراً حاضر کردی۔
میں نے جس زمانے میں دمشق جانا شروع کیا اس وقت شام میں حافظ الاسد کی حکومت تھی۔ شروع شروع میں مساجد بالکل خالی تھیں۔ نوجوان تو بہت کم نظر آتے تھے۔ چند بوڑھے لوگ مساجد میں ہوتے تھے۔ ہم جیسے سیاحوں کو بھی میزبان اشاروں کنایوں میں یہی تلقین کرتے تھے کہ ہوٹل کے کمرے ہی میں نماز ادا کرلیں توبہتر ہے کیونکہ یہاں کی انٹیلی جنس شکاری کتوں کی طرح نمازیوں کے پیچھے پیچھے ہوتی ہے۔ پھر ایک دور آیا جب یہاں آہستہ آہستہ حالات بہتر ہونے لگے اور مساجد نوجوانوں سے بھرنا شروع ہوگئیں۔ پھر میں نے وہ دور بھی دیکھا کہ جب مساجد میں بہت کم جگہ خالی نظر آتی تھی۔ شہر میں محدثین کے حلقے پھر سے قائم ہوگئے۔ جگہ جگہ معہد الاسد للتعلیم کے نام سے ادارے کھل گئے۔ میں نے متعدد بار اس وزیر کو خراج تحسین پیش کیا جس کی ذہانت کی بدولت شام میں قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ بحال کیا گیا۔ شام پر مختلف ادوار میں بڑے مشکل اوقات بھی آئے۔ 1980 کے بعد اس ملک میں تمام مدارس کو بند کردیا گیا، مگر آخر کب تک؟ قرآن کریم کی تعلیم تو ہر دور میں، ہر قسم کے مشکل حالات میں بھی چلتی رہی۔ شام کے وزیر مذہبی امور نے حافظ الاسد کو ایک ملاقات میں کہا: ہم آپ کے نام کو اجاگر اور زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔اس نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگے: ہم آپ کے نام سے ملک بھرمیں انسٹی ٹیوٹ کھولیں گے۔ آپ کا نام ہر گلی ہر بازار میں ہوگا۔ سوال ہوا: کیا نام رکھوگے؟ جواب دیاگیا: ہم ”معہد الاسد للتعلیم“ کے نام سے ادارے بنائیں گے۔ اس نے موافقت ظاہر کر دی۔ اس طرح پورے ملک میں معہدالاسد کے نام سے ادارے کھل گئے۔ جن میں آہستہ آہستہ قرآن کریم بھی پڑھایا جانے لگا۔ وہ وزیر تو اپنے رب کے پاس جا چکا ہوگا،
مگر اس کی ذہانت کی بدولت ایک اچھا کام ہوگیا۔ مجھے اس قسم کے حلقات میں جانے کا اور انہیں قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ دمشق میں لوگوں نے قرآن کریم کے بڑے بڑے خوبصورت حلقات قائم کررکھے تھے۔ بدقسمتی سے اب پھر شام کے حالات حافظ الاسد کے دور سے بھی کہیں بدتر ہوچکے ہیں۔
میں کئی مرتبہ سوچتا ہوں: الہٰی! وہ دن کب آئے گا جب اہل شام کو سکون اور امن ملے گا۔ انہیں اس بدبخت اور بدکردار حکومت سے نجات ملے گی۔شام پربشار الاسد کی سربراہی میں نصیری فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ عوام پر ڈنڈے کے زور سے مسلط ہیں؛ حالانکہ یہ لوگ تعداد کے لحاظ سے ایک معمولی اقلیت ہیں۔ اس فرقے کے عقائد کے بارے میں اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ ان کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے کافر قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن تیمیہؒ کی تمام کتب پر شام میں پابندی ہے۔
دمشق سے کوئی پندرہ بیس کلو میٹر کے فاصلے پر یہاں کے مالدار لوگوں نے خوبصورت”کارڈن“ (Cordon) بنا رکھے ہیں۔ ہمارے ایجنٹ یاسرطباع کے بہنوئی مازن نے بھی یہاں کچھ فارم ہاؤس بنا رکھے ہیں۔ایک مرتبہ مجھے بھی اس فارم ہاؤس میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔ ان دنوں گرمیوں کا موسم تھا۔ میں یاسر کے ساتھ اس کی مرسڈیز گاڑی میں جب فارم ہاؤس کی طرف روانہ ہوا تو ہمارا رخ جنوب کی طرف اردن کی سرحد کی جانب تھا۔دو رویہ سڑک کے ارد گرد زیتون کے درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ زیتون کا شجر مبارک ہوتا ہے۔ یہ درخت سو سال تک زندہ رہتا ہے۔مازن کا فارم ہاؤس دمشق سے کوئی بیس کلو میٹر دورتھا۔اس پورے علاقے میں ہی ہرجگہ امراء نے فارم ہاؤس بنا رکھے ہیں۔ ان کی بیرونی دیواروں سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ اندر سے کتنے خوبصورت ہوں گے۔
اس علاقے میں پانی بہت وافر اور میٹھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بڑی کثرت سے باغات اور کھیتیاں نظر آئیں۔ ہم مازن کے فارم ہاؤس میں داخل ہوئے تو سامنے دو منزلہ خوبصورت عمارت نظر آئی۔ عمارت کے دائیں جانب کافی بڑا سوئمنگ پول جس کے دو حصے تھے۔ ایک بچوں کے لیے اوردوسرا بڑوں کے لیے …… سوئمنگ پول بڑا خوبصورت نظر آیا۔ ایک نوکر اس کی صفائی کررہاتھا۔ دائیں جانب خوبصورت ہٹ (Hut)بنا ہوا تھا جس پر باربی کیو کا سامان رکھا ہوا تھا۔ ایک ملازم کوئلے جلا رہا تھا۔ سامنے وسیع پارکنگ تھی۔ جیسے ہی اندر داخل ہوئے ہمارا بھرپور استقبال ہوا۔ مجھے سب سے اہم جگہ پر بٹھایا گیا۔ چائے اپنے لوازمات سمیت آگئی۔ یاسر کے ساتھ میرے تعلقات کی مدت بیس سال سے زیادہ ہے۔ میں بے شمار دفعہ اس کے گھر میں گیا ہوں، مگر ان کے گھر کی خواتین کم ہی میرے سامنے آئی ہیں۔
مازن کے فارم میں بلڈنگ کی پچھلی جانب بڑا خوبصورت گارڈن تھاجس میں انواع واقسام کے پھول لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف سبزیاں بھی لگی ہوئی تھیں۔ عمارت کی بائیں طرف فٹ بال کا گراؤنڈ بنا ہوا تھا جس میں چھوٹے چھوٹے بچے بڑے خوبصورت رنگ برنگے کپڑے پہنے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ مازن نے میرا ہاتھ پکڑ لیااور کہنے لگا:
عبدالمالک! آؤ میں تمھیں فارم ہاؤس دکھاؤں۔اس میں بلاشبہ ایک ایک چیز بڑی خوبصورت اور قیمتی تھی۔ بلڈنگ کوئی بہت بڑی نہ تھی۔ نیچے بہت بڑا ہال تھا۔ ساتھ ہی متعدد باتھ روم اور مردوں، عورتوں کے لیے بیٹھنے کے لیے کمرے بنے ہوئے تھے۔ اوپر کی منزل میں متعدد بیڈ رومز تھے۔ بالکونی سے باہر خصوصاً سوئمنگ پول کا منظر بہت اچھا لگا۔ مازن کہنے لگا: ہم جب کبھی یہاں آتے ہیں تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ رات واپس دمشق جاکر اپنے گھر میں گزاریں۔ لمبے اونچے قد کا مازن خوب موٹا تازہ ہے، وزن 140 کلو گرام سے کم نہ ہوگا۔ اسی طرح یاسر بھی خاصے بھاری بھرکم جسم کا مالک ہے۔ اس کا وزن بھی 150 کلو گرام تو ہوگا ہی، مگر سبحان اللہ! شامیوں کی رنگت بہت خوبصورت اور بھلی لگتی ہے۔ یاسر سے میں نے بہت کچھ سیکھا، وہ لباس پر خوب توجہ دیتا ہے۔ ان کے گھروں کے اندر جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ نہایت خوبصورت فرنیچر، صاف ستھرے گھر، بلکہ اصل شامیوں کے گھر تو عجائب گھر کا نمونہ نظر آتے ہیں۔ خیر تھوڑی دیر کے بعد یاسر نے کپڑے تبدیل کیے اور سوئمنگ پول میں چھلانگ لگادی اور لگا مجھے للکارنے اور پچکارنے کہ تم بھی کپڑے تبدیل کرو اور آؤ سوئمنگ پول کا لطف اٹھاؤ۔پول کے ایک طرف بڑے ہی ماڈرن طریقے سے کپڑے تبدیل کرنے والی جگہ بنی ہوئی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں سوئمنگ پول میں تیررہاتھا۔ تیرنے کی بات آئی ہے تو میں بتا دوں کہ میں نے کیلیانوالہ کے نالہ وگھ میں بچپن میں تیرنا سیکھاتھا۔ پھر جب حافظ آباد میں تھا تو دوآبہ رائس ملز کے ساتھ نہر لوئر چناب تھی۔ یہاں ہم گرمیوں میں نہر کے کے پل سے چھلانگیں لگایا کرتے تھے۔میں بہت اچھا تیراک تو نہیں مگر اتنا کم بھی نہیں کہ بالکل تیر ہی نہ سکوں۔ نہر میں نہانے سے ڈر لگتا تھا مگر آدمی کی جب جھجک دور ہوجاتی ہے تو مزا بھی بہت آتا ہے۔
فارم کے ملازمین نے بڑے ہی مزیدار تکے، کباب اور نجانے کتنے کھانے تیار کررکھے تھے۔ اب شامیوں کے گھروں میں انڈونیشین نوکرانیاں بھی موجود ہیں۔ ان کے یہاں بھی ایسی ہی تین نوکرانیاں تھیں جو گھر کی خواتین کے ساتھ مل کر کھانا مہیا کررہی تھیں۔ میں نے مازن سے کہا: واقعی تمہارا یہ فارم بے حد خوبصورت اور دل نشیں ہے۔ اس روز میں نے اندازہ کیا کہ آدمی جس قسم کی سہولیات کا تصور کرسکتا ہے وہ سب یہاں موجود تھیں۔
شام ہونے تک ہم اس خوبصورت ماحول سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ کھانے کے بعد چائے، قہوہ، مزیدار فروٹ اورانواع واقسام کی شامی مٹھائیاں مہمانوں کی ضیافت کے لیے موجود تھیں۔ یاسر مجھے کہنے لگا: ہم لوگ کم وبیش ہر روز یہاں آتے ہیں اور اسی طرح وقت گزارتے ہیں۔ جب ہم واپس ہوئے تو رات کے دس بج چکے تھے۔
جس ملک کے ساتھ اتنی خوشگوار یادیں وابستہ تھیں آج وہ ملک آگ میں بُری طرح جل رہا ہے۔ ہزاروں جان سے گئے۔ لاکھوں ہجرت کرگئے اور مستقبل بالکل غیر واضح ہے۔ جہاں عالمی طاقتیں اس منظر نامے کو مزید خوں رنگ بنانے میں کوشاں ہیں وہاں شام کے صدر بشار الاسد اور اُن کی افواج اپنے ہی عوام پر چڑھ دوڑے ہیں اور ہر اختلاف رکھنے والے کو موت کے گھاٹ اُتار رہے ہیں۔